انجمن طلباء اسلام کو ترانہ جناب ادیب رائے پوری (مرحوم) نے لکھا۔ آپ ملک پاکستان کے نامور شاعر اور نعت گو بھی تھے۔انجمن طلباء اسلام اور ملک پاکستان کے ادبی طبقے میں آپ کی خدمات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ہیں۔
ادیب رائے پوری ایک پختہ گو اور کہنہ مشق نعت گو شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ شعری تازگی، توانا لہجہ، مؤثر انداز، وسیح مطالعہ اور قدیم و جدید اسالیب پر گرفت اُن کی شاعری اور تحریروں کے بنیاد مآخذ ہیں۔ کئی ردیف، ایسی لائے جو پہلے اردو ادب میں کسی نے پیش نہیں کیں۔ آپ کے کلام میں آنسووں، دیدہ نم، لذت غم اور گریہ پیہم کا تذکرہ ندرتِ خیال کے ساتھ پیش ہے۔ عشق آہوں اور قلبی کیفیات کے ساتھ ساتھ نظر آتا ہے۔ آپ کا نعتیہ کلام شعری لوازمات اور فنی صلاحیتوں سے بھرپور آراستہ ہے۔

آپ کی کئی نعتوں کو بے حد شہرت حاصل ہوئی، مثلاً:

یا محمد نور مجسم۔۔
آج اشک میرے نعت سنائیں۔۔
خدا کا ذکر کرے اور ذکر مصطفٰی نہ کرے۔۔
عشق کے رنگ میں رنگ جاؤ میرے یار۔۔
لیب پہ ہر دن نامِ نبی۔ ۔
اور ترانہ انجمن طلباء اسلام ۔۔

آپ کا اصل نام سید حسین علی تھا۔ ١٩٢٨ میان بھارت کے شہر رائے پور میں پیدا ہوئے۔ ١٣ اگست ١٩۴٧ کو پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ ١٩٦٨ میں جامعہ کراچی سے ایم اے اردو کیا۔
آپ نے ١٩٦٦ میں پہلا پاکستان میں پہلا “کل پاکستان مقابلہ نعت” کا انعقاد کیا۔ ادیب صاحب نے نعت کے حوالے سے کئی ادارے قائم کیے جن میں “پاکستان نعت کونسل”(١٩٧٠) اور پاکستان نعت اکیڈمی(١٩٨٠) نمایاں ہیں۔ جس کے وہ صدر تھے۔

اکیڈمی کے چیئرمین انجمن طلباء اسلام کے بانی رکن حاجی محمد حنیف طیب تھے۔ پاکستان نعت اکیڈمی جانب سے ١٩٨٢ میں کراچی میں عالمی نعت کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں دنیا بھر سے ممتاز نعت گو شعراء، نعت خواں اور علماء کرام نے شرکت کی۔ ١٩٨۴ میں اکیڈمی کے تحت لندن، برمنگھم، بریڈ فورڈ اور ویسٹ انڈیز کے شہر ٹرینی ڈاڈ میں عالمی نعت کانفرنس کے یادگار پروگرام ہوئے۔ ١٩٩٢ میں پہلی مرتبہ شعبہ نعت میں نمایاں خدمات انجام دینے والے عظیم افراد کو ایک چھت تلے جمح کر کے “سلور جوبلی ایوارڈ” تقسیم کیے۔

انھوں نے جنوری ١٩٨۴ء میں نعت کے موضوع پر سب سے پہلا ماہنامہ “نوائے نعت” کراچی جاری کیا جو ٨ سال جاری رہا۔

اُن کی درج ذیل تحقیقات و تصنیفات ہیں۔

١- پہلا مجموعہ نعت (اس قدم کے نشاں) ١٩٧٧
٢-دوسرا مجموعہ نعت تصویر کمال محبت ١٩٧٩
٣-نعت کے تدریجی ارتقاء پر مدارج النعت ١٩٨٦
۴-عربی نعتیہ شاعری کے تحقیقی و تاریخی جائزے پر “مشکوة النعت” ١٩٩٣
۵-دورود تاج کی تحقیق و تشریح پر “دورود تاج” ١٩٩٣
٦-تیسرا مجموعہ نعت “مقصود کائنات” ١٩٩٨
٧-نعتیہ ادب میں تنقید و مشکلاتِ تنقید ١٩٩٩
٨-قرآنی مضامین کا انتخاب “موجِ اضطراب” ٢٠٠۴
٩-خوشبوئے ادیب ، چوتھا اضافی مجموعہ نعت، جو ٢٠١٧ میں شائع ہوا۔
١٠-اردو زبان و ادب کا ارتقاء، تصوف کی روشنی میں۔
١١-مرزا غالب کی نعتیہ شاعری

١٢-مقالات ادیب رائے پوری
١٣-ستاروں سے آگے جہاں (نعتیہ اسٹیج ڈرامہ) اور خاک آلود دستارے (ظلم و جبر کے خلاف قلمی بغاوت)

ادیب رائے پوری کی شخصیت، خدمات اور شاعری پر کئی افراد نے مقالات لکھے۔ انجمن طلباء اسلام کا ترانہ تخلیق کرنے پر انجمن نے انھیں شاعر انجمن کا لقب دیا۔ ترانہ انجمن، ادیب رائے پوری کا پسندیدہ کلام تھا مگر یہ کلام اُن کی کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں۔ ادیب رائے پوری کا انتقال ١٦ اکتوبر ٢٠٠۴ء بمطابق یکم رمضان المبارک ١۴٢۵ھ کو کراچی میں ہوا اور میوہ شاہ قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

خوشبو ادیب تیری نعتوں سے آ رہی ہے
اک بار کیا گیا ہے دربار، مصطفٰی میں
مرنے کے بعد میرے، پوچھے تو کوئی کہنا
وہ نعت پڑھ رہا ہے، دربار مصطفٰی میں

معین نوری۔